Skip to main content

نتیجہ 

تخلیق کے مقصد کے علم کے بغیرانسان بے مقصد، جیسے کشتی بغیر پتوار، اپنے غلط اہداف، غلط  مذ ہبی تعلیمات اور مادیت پرستی کی وجہ سے، زندگی بھٹکتے ہوۓ گزارتا ہے ، ۔ چنانچہ وہ دنیا کا ہو کر رہ جاتا ہے۔ ان کی بہتری کے لۓ، اسی لۓ یہ نہایت اہم ہے،کہ وہ یہ جانتے ہوں کہ اللہ ﷻ  نے ان کو کیوں بنایا۔

 بنیادی طور پر، اللہ ﷻ نے اپنی مخلوق میں اپنی صفات کو ظاہر کرنے کے لئے پیدا کیا۔ لہذا مخلوق اس کے خالق ہونے کا نتیجہ ہے، جنت اس کی رحمت اورفضل ، جہنم اس کے انصاف، انسان کی

غلطیوں میں اس کی بخشش، زندہ اور بیجان میں اس کی سخاوت کا اظہار ہے  وغیرہ ۔

ان مقاصد کا علم ہونا نہایت اہم ہے تاکہ اللہ ﷻ کو صحیح طور سے پہچانا جاسکے،اس کے فیصلوں کواوراپنی تقدیر کو تسلیم کیا جاسکے۔

البتہ، اس سے بھی زیادہ یہ اہم ہے کہ انسان کو اپنی تخلیق کا مقصد معلوم ہو۔ آخری وحی ہمیں آگاہ کرتی ہے کہ تخلیق کا مقصد اللہ ﷻ کی عبادت کرنا ہے۔ صرف اس کے بعد ہی  جنت میں داخل

 ہونے کے لۓ،  وہ راستبازی اور ضروری روحانی حیثیت حاصل کرسکتے ہیں ۔

عبادت،اتنی ہی  زیادہ ضروری ہے جیسے کہ کھانا کھانا اور سانس لینا اور یہ کرکے وہ اللہ ﷻ پر

کوئ احسان نہیں کرتے۔

یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ انسان اس دنیوی نعمتوں اور امتحانات، کی اہمیت کو سمجھے ورنہ   امکان ہے کہ وہ اس دنیا کواپنے لۓ دشمن سمجھنے لگے۔

 اللہ ﷻ نے بنیادی طور پر یہ سب ان کے فائدے کے لئے پیدا کیا۔ اچھے اور برے امتحان کو

 انسان کے اعلی روحانی خصوصیات کو ابھار کرنکالنے کے لئے تیارکیا گیا ۔

تاہم، انسان ان آزمائشیوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے جب تک کہ وہ اللہ ﷻ پر مکمل اعتماد نہ کریں

اور اس پر صبر کریں جو اس نے ان کے لئے مقدر کیا ہے۔

ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اللہ ﷻ کویکسر مسترد کیا، اس دنیا کی آزمائشیں، اگلی دنیا میں ابدی

 سزا سے پہلے، اس زندگی میں ہی سزا بن جاتی ہیں۔

دنیا کی تخلیق کے مقصد کا علم مومن کو ماحول کے بارے میں باشعورکرتا ہے۔

انسان ذمہ دار ہے کہ زندگی کی نعمتوں کو عدل کے ساتھ استعمال کرے۔ زمین اور سمندر کی

 مخلوقات، نباتات اور ماحول سب اس کی نگرانی میں دے دۓ گۓ ہیں۔

نتیجتا، انسان کواللہ ﷻ سے اپنے شکر کا اظہار کرتے ہوۓ، بہت خیال سے ماحول کو اور اس میں

 بسنے والی مخلوق کی حفاظت کرنی چاہئیے ۔

اپنے مقصد کا اتنا جامعہ شعور انسان کو مکمل بنا دیتا ہے۔ وہ راستبازی کے راستے کی طرف

رہنمائ کرتے ہوۓ، انسانیت کے راہنما میں تبدیل ہو جاتا  ہے۔

اس کے نتیجے میں، اللہ ﷻ نے انہیں اپنی حتمی وحی میں سب سے بہترین انسانوں کے طور پر بیان کیا ہے۔

{ كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ }

‘تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔۔۔ ‘( 3:110)

Leave a Reply