Skip to main content

اللہ نے زمین پر انسان کو کیوں تخلیق کیا ؟

 یہ ایک عام سا سوال ہےجو مسلمان یا غیر مسلمان کے دماغ میں ابھرتا ہے، کہ ‘انسان کو اللہ ﷻ نے زمین پر کیوں تخلیق کیا؟

 اللہ نے اس ‘ کیوں ‘ کے جواب میں اپنی کتاب ‘قرآن ‘میں فرمایا کہ اس نے انسان کے ایمان کو

آزمانے کے لۓ دنیا میں اس کی تخلیق کی۔

اس آزمائش کے دو بنیادی مقاصد ہیں:

1۔ انسان کی روحانی نش و نما

2۔ سزا اور جزا

یہ دنیوی آزمائشیں بنیادی طور پر روحانی نشو و نما کے لۓ ہیں۔ سخاوت اور اطمینان ایسی عظیم خصوصیات ہیں جو صرف روحانی جدوجہد سے ہی حاصل ہوتی ہیں۔

جب دولت کی ہوس بڑھتی ہے تو حسد پنپتا ہے- اس لۓ اللہ ﷻ کے شکر گزار رہو اور ہمیشہ ان کو

دیکھو جوتم سے کم خوش قسمت ہیں۔ اس منفی خصوصیت سے چھٹکارا بھی روحانی ترقی کا

حصہ ہے۔ حسد اور اطمینان ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ جیسے جیسے اطمینان بڑھتا ہے حسد  میں

کمی ہوتی جاتی ہے۔

تاہم، اطمینان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنے مقاصد کو حاصل کرنے میں جدوجہد کرنا چھوڑ دیا

جاۓ، جبکہ اللہ ﷻ  سے مدد تلاش کرتے رہنا اور اس پر بھروسہ رکھنا چاہیۓ.

آزمائشیں اور آلام مومن کی روحانی ترقی کو بڑھانے کا باعث ہوتے ہیں۔ یہی وہ بنیاد ہے جس سےصبر کی اعلی ترین صفت پیدا ہوتی ہے۔  مصیبت کے وقت حقیقی صبر، اللہ ﷻ پر کامل بھروسے کا ہی نتیجہ ہوتا ہے۔ اللہ آزمائش انسان کے ظرف کے مطابق دیتا ہے تاکہ اس کے اندر سے بہترین

انسان کو باہر نکالے۔

کبھی کبھی انسان آزمائشوں سے مایوسی میں گھر کر ایمان کھو دیتا ہے۔

اللہ ﷻ کی رحمت سے تو صرف کافر ہی مایوس ہوتے ہیں۔

اللہ کی رحمت سےامید رکھنا، ایمان کا لازمی جز ہے۔ جو لوگ صبر کے ساتھ صحیح کام کرنے کی جدوجہد کرتے ہیں اور استقامت کے ساتھ اللہ ﷻ کے فرمابردار رہتے ہیں، انہی کے لۓ انعامات اور

ہمیشگی کی آسانیوں کا  وعدہ ہے۔

جب اللہ ﷻ کسی کے لۓ صحیح راستے کی طرف رہنمائ کا ارادہ فرماتا ہے تو یاد دہانی کے طور

 پر آزمائشیں بھیجتا ہے۔ جن کا ایمان ابھی قائم ہوتا ہے وہ اپنی غلطی کو پہچان لیتے ہیں اور اپنے

 رب کی طرف عاجزی اور سپردگی کے ساتھ پلٹ آتے ہیں اور کامیاب ہوجاتے ہیں۔

یہ آزمائشیں منافقوں کو بھی بے نقاب کرتی ہیں۔ جو لوگ بالکل ہی الہامی ھدایت اور حکمت کو

 مسترد کر دیتے ہیں، یہ ان کے لۓ سزا کا باعث ہوتی ہیں۔  ہمارے پاس گزشتہ قوموں کی مثالیں

موجود ہیں جنہوں نے الہامی ھدایت کو مسترد کیا اور نتیجتا تباہ کر دی گئیں۔

مستقل نافرمانی اللہ ﷻ کی سزا کی طرف لے جاتی ہیں۔ یہ سزائیں مختلف درجوں کی ہوتی ہیں : فرد کے درجہ پراور قوموں کے درجے پر بھی۔

اللہ ﷻ قرآن میں  سورہ 18، آیت 7 میں فرماتا ہے:

” واقعہ یہ ہے کہ جو کچھ بھی سروسامان زمین ہر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایا تاکہ

 ان لوگوں کو آزمائیں کون ان میں سے اچھے عمل کرتا ہے”۔

Leave a Reply